خدمت خلق :اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ پسند ہے! تØ+ریر : مولانا فضل الرØ+یم اشرفی

Ø+دیث نبوی ï·º میں ارشاد ہوا کہ

’’عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی Ø+اجۃ اخیہ کان اللہ فی Ø+اجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیمۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیمۃ‘‘(متفق علیہ)

ترجمہ:’’Ø+ضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ï·ºÙ†Û’ فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن Ú©Û’) سپرد کرتا ہے جو مسلمان بھائی Ú©ÛŒ ضرورت میں کام آئے گا اللہ تعالیٰ اس Ú©ÛŒ ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان Ú©Û’ رنج اور غم Ú©Ùˆ دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت Ú©Û’ دن اس Ú©ÛŒ مصیبت Ú©Ùˆ دور کر دے گا اور جو کسی
مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا‘‘۔

خدمت خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ خوشنودی اور اس Ú©ÛŒ رضا Ú©Û’ لیے اس Ú©ÛŒ مخلوق Ú©Û’ Ø+قوق Ú©ÛŒ ادائیگی کرنا، اس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شامل ہیں۔ خدمت خلق میں بنیادی بات یہ ہے کہ خدمت Ù…Ø+ض خدمت Ú©Û’ جذبہ سے ہو کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ شہرت، دکھلاوا اور نام Ùˆ نمود شامل نہ ہو داد تØ+سین، لوگوں Ú©ÛŒ واہ واہ مقصود نہ ہو۔ اگر کوئی شخص خدمت خلق سے متعلق کام کا ملازم ہو اسے اس کام Ú©ÛŒ تنخواہ ملتی ہو تب بھی وہ اپنا کام دیانتداری سے کرے اور عام شہریوںسے اچھے سلوک سے پیش آئے اورشہریوں Ú©Ùˆ زیادہ فائدہ پہنچانے Ú©ÛŒ فکر میں رہے تو یہ بھی خدمت خلق Ú©ÛŒ ایک اعلیٰ صورت ہے۔

خدمت خلق بنیادی طور پر تین انداز سے Ú©ÛŒ جا سکتی ہے ایک تو مالی خدمت، یعنی اپنا مال دوسرے ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرنا اور دوسرا انداز بدنی خدمت کا ہے یعنی اپنے جسم سے ایسے کام انجام دینا جس سے مخلوق خدا Ú©Ùˆ فائدہ پہنچتا ہو جیسے کمزور اور بیمار لوگوں Ú©Û’ ایسے کام کرنا جو وہ خود نہیں کر سکتے۔ خدمت خلق کا تیسرا انداز اخلاقی اور روØ+انی خدمت یعنی دوسروں Ú©Ùˆ برائی سے بچانا اور نیک راستے پر چلانا جہالت Ú©ÛŒ تاریکی دور کر Ú©Û’ علم Ú©ÛŒ روشنی سے منور کرنا۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

{لقد کان Ù„Ú©Ù… فی رسول اللہ اسوۃ Ø+سنۃ}

’’یعنی تمہارے لیے اللہ کے رسول (ﷺ) میں بہترین نمونہ زندگی موجود ہے۔‘‘

چنانچہ خدمت خلق Ú©ÛŒ تعلیم اور اس پر عمل کا نمونہ بھی Ø+یات نبوی ï·º میں مکمل موجود ہے۔ مالی انداز سے بھی بدنی انداز سے بھی اور روØ+انی انداز سے بھی۔ گویا کہ خدمت Ú©Û’ ہر انداز سے خلق خدا Ú©ÛŒ خدمت کی۔مالی انداز سے خدمت رسول اللہ ï·ºÙ†Û’ اس Ø+د تک فرمائی کہ اگر ایک درہم بھی گھر میں رات Ú©Ùˆ رہ جاتا تو نیند نہ آتی کہ یہ Ù…Ø+تاج Ú©Ùˆ پہنچ جائے۔ یہاں تک کہ آپ ï·ºÚ©Û’ ہاں ایک دفعہ ایک مہمان آیا، رات Ú©Û’ وقت گھر میں صرف بکری کا دودھ تھا۔ وہ مہمان Ú©Ùˆ دے دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ اور آپ Ú©Û’ گھر والوں Ù†Û’ وہ رات فاقہ میں گزاری۔ روایت میں لکھا ہے کہ اس سے پہلی رات بھی فاقہ سے گزری تھی۔ آپﷺ فرماتے تھے ساری مخلوق اللہ Ú©ÛŒ عیال ہے، مخلوق میں سب سے زیادہ Ù…Ø+بوب اللہ تعالیٰ Ú©Û’ نزدیک وہ ہے جو اللہ Ú©ÛŒ عیال Ú©Û’ ساتھ بھلائی Ú©Û’ ساتھ پیش آئے۔ آپ Ù†Û’ فرمایا جس Ú©Ùˆ دوسرے Ú©Û’ دکھ درد کا اØ+ساس نہیں اور جس کا دل دوسرے Ú©ÛŒ تکلیف دیکھ کر نہیں پسیجتا وہ اللہ Ú©ÛŒ رØ+مت کا ہرگز مستØ+Ù‚ نہیں تم اس خدا Ú©ÛŒ مخلوق پر مہربانی کرو تاکہ تم پر خدا مہربان ہو جائے۔

اس لیے ضرورت مند انسانوں Ú©ÛŒ ہر قسم Ú©ÛŒ ضروریات پوری کرنا خدمت خلق Ú©ÛŒ اہم ترین صورت ہے۔ خدمت خلق کا ایک شعبہ یتیموں Ú©ÛŒ خدمت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں Ú©ÛŒ خاص طور پر خبر گیری فرماتے اور یہاں تک فرمایا کہ جو یتیم Ú©Û’ سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرتا ہے اتنی نیکیوں میں اضافہ اور اتنے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ بیوہ Ú©ÛŒ خبر گیری Ú©Ùˆ جہاد Ú©Û’ برابر قرار دیا کہ یہ بھی خدمت Ú©ÛŒ مستØ+Ù‚ ہیں۔Ø+ضرت خباب Ø“Ú©Û’ گھر بکریوں کا دودھ دوہنے Ú©Û’ لیے کوئی نہ تھا ۔آپﷺ روزانہ ان Ú©Û’ گھر بکریوں کا دودھ دوہنے Ú©Û’ لیے تشریف Ù„Û’ جاتے رہے۔آپؐ فرماتے، جب تک بندہ اپنے بھائی Ú©ÛŒ مدد میں مصروف رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندہ Ú©ÛŒ مدد کرتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ تو یہاں تک فرمایا کہ ’’مجھے رمضان بھر Ú©Û’ روزے رکھنے اور اس مبارک مہینہ میں مسجد Ø+رام میں بیٹھ کر اعتکاف کرنے سے زیادہ عزیز یہ ہے کہ میں کسی مسلمان Ú©ÛŒ بوقت ضرورت مدد کروں‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض روزے اور فرض Ø+ج ادا نہ کرے اور بس اس Ú©Û’ بجائے دوسروں Ú©ÛŒ مد د کر دی جائے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ فرض عبادات اپنی جگہ ادا کرے اور خلق خدا Ú©ÛŒ خدمت بھی کرتا رہے۔

خدمت خلق Ú©ÛŒ فضیلت تو واضØ+ ہوئی لیکن یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پھر انسان خلق خدا Ú©ÛŒ خدمت میں اتنے شوق کا اظہار کیوں نہیں کرتا جتنا کرنا چاہیے۔ اس Ú©ÛŒ وجہ یہ ہے کہ خدمت خلق انسان Ú©Û’ لیے جب آسان ہوتی ہے جب انسان Ú©Û’ اندر قناعت ہو Ø+رص ولالچ نہ ہو‘ دوسرے انسانوں سے ہمدردی ہو نفسانفسی اور بے Ø+سی نہ ہو‘ دوسرے انسانوں سے Ù…Ø+بت ہو نفرت نہ ہو۔اس لیے Ø+ضورپاکﷺنے اپنی Ø+یات طیبہ اور اسوۂ Ø+سنہ میں قناعت، ہمدردی اور خلق خدا سے Ù…Ø+بت کرنے Ú©ÛŒ خوب تاکید فرمائی۔ جب انسان Ú©Û’ اندر یہ خوبیاں پید اہو جائیں تو پھر وہ خدمت خلق Ú©ÛŒ مختلف صورتیں خود بخود انجام دینے لگتا ہے۔ جیسے رفاہ عامہ Ú©Û’ کام مثلاً مسجد Ú©ÛŒ تعمیر، سکول اور مدرسے قائم کرنا‘ ڈسپنسریاں قائم کرنا، ادویات مہیا کرنا، صاف پانی کا بندوبست کرنا، یتیموں Ú©ÛŒ کفالت اور بیوائوں Ú©ÛŒ خبر گیری کرنا، بیمار Ú©ÛŒ عیادت کرنا اس Ú©ÛŒ ضروریات کا خیال کرنا، سماجی بہبود Ú©Û’ کام انجام دینا‘ ہمسایوں Ú©Û’ ساتھ اچھا سلوک اور ان Ú©Û’ کام آنا، مسافروں اور رشتہ داروں Ú©Û’ ساتھ تعاون Ú©Û’ طریقے اپنانا۔ یہ خدمت خلق Ú©ÛŒ مختلف صورتیں ہیں۔

ترجمہ: بے Ø´Ú© میرا پردادا ہاشم قریش کا سردار تھا مگر وہ بھی سب Ú©ÛŒ خدمت کیا کرتے تھے۔رسول اکرم ï·ºÙ†Û’ فرمایا کہ ’’راستہ سے تکلیف دہ چیز Ú©Ùˆ ہٹا دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔ دور جدید میں یہ بھی خدمت خلق Ú©ÛŒ اہم ترین صورت ہے دوسری طرف وہ انسان جو کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک Ú©Û’ لفافے ادھر ادھر پھینک دے اور سیوریج Ú©Û’ نظام Ú©Ùˆ درہم برہم کر دے گلیوں میں پانی کھڑا ہو گیا ،بدبو اور تعفن سے سب Ú©Ùˆ تکلیف ہوئی کارخانہ لگایا اس کا فاضل مادہ پانی میں بہا دیا۔ بیماریوں Ú©Û’ پھیلنے کا سبب بنا یہ دوسرے انسانوں Ú©Ùˆ تکلیف پہنچانے Ú©ÛŒ صورتیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ہمیں یہ تعلیم دی کہ مسلمان وہ شخص ہوتا ہے جس Ú©ÛŒ زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان Ù…Ø+فوظ رہیں۔ آپ ï·º Ú©Ùˆ یتیموں سے بھی بڑی Ù…Ø+بت تھی‘ ایک بچے Ú©Ùˆ کمزور بے لباس دیکھا‘ اس سے وجہ پوچھی وہ رو پڑا اور بھوک Ú©ÛŒ شکایت کی‘ آپ Ú©ÛŒ آنکھوں میں بھی آنسو آگئے‘ آپ Ù„Ú‘Ú©Û’ Ú©Ùˆ گھر Ù„Û’ گئے کھانا کھلایا اور Ú©Ù¾Ú‘Û’ پہنائے۔ جوانی میں معاشرتی ذمہ داریاں پیش آئیں تو تجارت Ú©Ùˆ ذریعہ معاش بنایا تجارت Ú©ÛŒ کامیابی کا علم مکہ Ú©ÛŒ مالداری خاتون بی بی خدیجہ Ú©Ùˆ ہوا تو اپنے کارندوں Ú©Û’ ذریعہ شام Ú©Û’ سفر تجارت پر بھیجا اپنے معتبر غلام میسرہ Ú©Ùˆ بھی ساتھ کردیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ایسی دیانت اور Ù…Ø+نت سے کام کیا کہ Ø+ضرت خدیجہؓ Ú©Ùˆ توقع سے زیادہ منافع ہوا۔ میسرہ Ú©Û’ ذریعہ نیکی اور دیانت کا معیار سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Ùˆ شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ عمر Û²Ûµ سال اور Ø+ضرت خدیجہؓ Ú©ÛŒ عمر Û´Û° سال تھی۔ Ø+ضرت خدیجہ Ø“Ú©ÛŒ صورت میں ایک نیک اور خدمت گزار بیوی ملی ان Ú©Û’ ہمراہ بڑی پرسکون اور خوشگوار خانگی زندگی گزری۔ ان سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پاگئے۔ کامیاب جوانی Ú©ÛŒ زندگی میں ایک کامیاب انسان ØŒ ایک کامیاب باپ، خاوند اور پھرکامیاب تاجر Ú©ÛŒ زندگی گزری، یہاں تک کہ چالیس سال Ú©ÛŒ عمر میں نبوت عطا ہوئی۔

والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں‘ ان Ú©ÛŒ جسمانی قوتیں کمزور پڑجاتی ہیں اس موقع پر ان Ú©Ùˆ اولاد Ú©ÛŒ خدمت Ú©ÛŒ ضرورت ہوتی ہے‘ اس وقت اولاد Ú©ÛŒ ذرا سی بے رخی بھی Ù…Ø+سوس ہوتو وہ ان Ú©Û’ دل پر زخم سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے‘ اس لیے اللہ رب العزت Ù†Û’ سورئہ بنی اسرائیل میں والدین سے اچھا سلوک کرنے کا Ø+Ú©Ù… فرمایا تو وہاں ان Ú©ÛŒ بزرگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ جب وہ بڑھاپے Ú©Ùˆ پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہنا اور نہ ان Ú©Ùˆ جھڑکنا اور ادب سے بات کرنا‘‘۔ پھر آخر میں والدین Ú©Û’ لیے جو دعا کرنے کا Ø+Ú©Ù… فرمایا اس دعا Ú©Û’ الفاظ توجہ Ú©Û’ قابل ہیں وہاں یہ نہیں فرمایا اے اللہ ان بزرگوں Ú©Ùˆ ہدایت دے یہ ہمارے لیے بوجھ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ فرمایا یوں دعا کرو رَبِّ ارْØ+َمْہُمَا کَمارَبَّیٰنیِ صَغِیْراً اے ہمارے پروردگار ان پر رØ+Ù… فرما جس طرØ+ کہ انہوں Ù†Û’ ہمیں بچپن میں پالا بچپن میں ہم ان بزرگوں Ú©Û’ Ù…Ø+تاج تھے نہ کھاسکتے تھے نہ Ù¾ÛŒ سکتے تھے‘ اپنی صفائی بھی نہ کرسکتے تھے واقعی ہماری Ø+الت قابل رØ+Ù… تھی ان بزرگوں Ù†Û’ اس وقت ہم پر رØ+Ù… فرمایا اے اللہ اب ان پر Ù…Ø+تاجی کا وقت ہے آپ ان پر رØ+Ù… فرمائیے۔

دراصل Ø+ضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ بادشاہ مصر کافر ہے اس کا عملہ بھی ایسا ہی ہے اور ملک میں Ù‚Ø+Ø· آنے والا ہے اس وقت خود غرض لوگ اللہ Ú©ÛŒ مخلوق پر رØ+Ù… نہ کریں Ú¯Û’ اور لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں Ú¯Û’ کوئی دوسرا شخص ایسا موجود نہیں تھا جو غریبوں Ú©Û’ Ø+قوق میں انصاف کر سکے اس لیے خود عہدہ Ú©ÛŒ درخواست Ú©ÛŒ اگرچہ اس Ú©Û’ ساتھ Ú©Ú†Ú¾ اپنے کمالات کا اظہار بھی ضرورت Ú©ÛŒ وجہ سے کرنا پڑا تاکہ بادشاہ مطمئن ہو کر عہدہ ان Ú©Û’ سپرد کر دے۔علامہ Ù…Ø+مد بن اØ+مد القرطبی لکھتے ہیں۔ ’’اگر آج بھی کوئی شخص یہ Ù…Ø+سوس کرے کہ کوئی عہدہ Ø+کومت کا ایسا ہے جس Ú©Û’ فرائض Ú©Ùˆ کوئی دوسرا آدمی صØ+ÛŒØ+ طور پر انجام دینے والا موجود نہیں اور خود اس Ú©Ùˆ یہ اندازہ ہے کہ میں صØ+ÛŒØ+ انجام دے سکتا ہوں تو اس Ú©Û’ لیے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ اس عہد ہ Ú©ÛŒ خود درخواست کرے مگر اپنے جاہ Ùˆ مال Ú©Û’ لیے نہیں بلکہ خدمت خلق Ú©Û’ لیے جس کاتعلق قلبی نیت اور ارادہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر خوب روشن ہے۔‘‘

اسلام Ú©Û’ عادلانہ معاشی نظام میں انسانوں Ú©Û’ لیے باہمی تعاون اور خدمت خلق Ú©ÛŒ بہترین صورت تجارت ہے جس Ú©Û’ ذریعہ تجارت کرنے والے افراد اپنی تیار کردہ یا دور دراز سے لائی ہوئی اشیاء بیچتے اور خریدتے ہیں اور اس عمل میں نفع کمانا اہم مقصد نہیں بلکہ انسانی ہمدری اور خدمت خلق اولین مقصد ہونا چاہیے اس لیے کہ تجارت کا وجود ہی اس طرØ+ ہوا کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے میں دوسرے انسانوں Ú©Û’ Ù…Ø+تاج ہیں اور ایک ہی ملک یا ایک ہی علاقہ میں تمام ضروریات کا مہیا ہونا نقل Ùˆ Ø+مل میں آزادی Ú©Û’ بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اسلام Ù†Û’ شہریوں Ú©Ùˆ نقل Ùˆ Ø+مل Ú©ÛŒ آزادی کا Ø+Ù‚ دیا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ نقل Ùˆ Ø+مل Ú©Ùˆ ثواب کا کام قرار دیا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

{مامن جالب یجلب طعاما من بلدالی بلد فیبیعہ بسعریومہ الا کانت منزلتہ عند اللہ منزلۃ الشہداء}

’’کہ جو تاجر مشقت اٹھا کر ایک شہر سے دوسرے شہر تک اناج Ù„Û’ جاتا ہے اور اس دن Ú©Û’ بھائو سے فروخت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ Ú©Û’ نزدیک اس کا درجہ شہید Ú©ÛŒ طرØ+ ہے۔ ‘‘

خدمت خلق میں رکاوٹ ایک یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ’’دوسرے لوگ تو یہ نہیں کرتے ہم کیوں کریں۔‘‘ یا یہ خیال آتا ہے کہ دوسرا ہم سے اچھا سلوک نہیں کرتا ہم کیسے کریں۔ یہی سوال ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صØ+ابہ کرام رضی اللہ عنہم Ù†Û’ کر دیا‘ عرض کیا یا رسول اللہ بعض لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہم ان سے اچھا سلوک کیسے کریں؟ آپ Ù†Û’ فرمایا اگر تمہارے ساتھ وہ اچھا سلوک کریں اور تم بھی مقابلے میں ان سے اچھا سلوک کرو یہ تم Ù†Û’ ان کا بدلہ اتارا‘ اØ+سان تو یہ ہے کہ تمہارے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کرے تب بھی تم اس Ú©Û’ ساتھ اچھا سلوک کرو۔ چنانچہ اسی جذبہ سے اسوہ Ø+سنہ Ú©ÛŒ روشنی میں خدمت خلق Ú©Ùˆ بطور عبادت ادا کیا جائے تو جہاں خدمت خلق سے اللہ Ú©ÛŒ رضا اور خوشنودی Ø+اصل ہو Ú¯ÛŒ وہاں معاشرہ میں ایک دوسرے انسان Ú©Û’ دل میں باہمی اØ+ترام اور Ù…Ø+بت پیدا ہو Ú¯ÛŒ انسان Ú©Ùˆ خود اپنی ضرورت پورا کرنے میں جتنا سکون ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ خدمت خلق کرنے والے انسان Ú©Ùˆ روØ+انی تسکین نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب Ú©Ùˆ خلوص Ú©Û’ ساتھ خلق خدا Ú©ÛŒ خدمت کرنے Ú©ÛŒ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔